قربانی کن لوگوں پر واجب ہے۔۔۔؟


قربانی کن پر واجب ہے؛ یہ ایک ایسا سوال ہے جسے مسلمان عموما ایام قربانی ہی میں تلاش کرتے ہیں۔ اور اس 
 متعلق اہم مسائل میں جاننے والوں سے رجوع کرتے ہیں۔ جبکہ یہ قربانی ایسی مہتم بالشان عبادت ہے کہ اس سے متعلق عام معلومات سے ہر عاقل،بالغ،مسلمان مرد و عورت کو بخوبی واقف ہونا چاہیے۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ جوں جوں دنیا اختراعات و ایجادات اور نت نئے انکشافات کر رہی ہے؛ مسلمان شعائر اسلام سے اتنےہی لاپروا ہوتے جارہے ہیں۔اسلامی فرائض و عبادات کا تقاضہ کیا ہے؛ اس کی کوئی فکر نہیں۔۔! بس چند ظاہری شکلوں مسلمانوں نے اسلام سمجھ رکھا ہے۔
فرائض سے متعلق ضروری معلومات سے ناواقفیت کی وجہ سے کتنے ہی ایسے ہیں جن پر قربانی کرنا واجب ہوتی ہے لیکن  نہیں کرتے۔ اس لیے خیال آیا کہ اس سوال کا جواب ڈھونڈ نکالا جائے کہ قربانی کن پر واجب ہے۔
ہر ایسے مرد و عورت جو مسلمان ہوں،عاقل اور بالغ ہوں،غلام نہ ہوں،مسافر نہ ہوں اور صاحب نصاب ہوں یعنی ان کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا سامان تجارت یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں یا ان میں سے کچھ کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ان پر قربانی واجب ہے۔(الجوهرة النیرة:ج۱ص۱۶۰، باب من یجوز دفع الصدقة الیہ و من لا یجوز)
یاد رہے کہ وہ اشیا جو ضرورت و حاجت کی نہ ہوں بلکہ محض نمود و نمائش کی ہوں یا گھروں میں رکھی ہوئی ہوں اور پورے سال استعمال میں نہ آتی ہوں تو وہ بھی نصاب میں شامل ہوں گی۔(بدائع الصنائع:ج۲،ص۱۵۸،۱۵۹،ردالمحتار ج۳ص۳۴۶ باب مصرف الزکوة و العشر)
گھر کا ہر صاحب نصاب قربانی کرے۔
آج کل سوشل میڈیا پر مسلم شریف، کتاب الاضحیہ کی اس حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
[عن أبي أيوب الأنصاري:] كانَ الرَّجلُ في عَهدِ رسولِ اللَّهِ ﷺ يضحِّي بالشّاةِ عنهُ وعن أَهلِ بيتِهِ۔
الألباني (ت ١٤٢٠)، التعليقات الرضية ١٢٥‏/٣ • إسناده صحيح على شرط مسلم۔
کہ اس حدیث کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا اور اسی بکری سے خود بھی کھاتا اور دوسروں کو بھی کھلاتا تھا اور اس حدیث کی وجہ سے امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک بکری ایک آدمی کے پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے، حتیٰ کہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک گھر میں کئی صاحب نصاب افراد ہوں تو ان میں سے ہر ایک کی طرف سے قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر ایک بکری کی قربانی کردی جائے تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گی، بشرطیکہ وہ سب آپس میں رشتہ دار ہوں اور ایک ہی گھر میں رہتے ہوں۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث ثواب میں شرکت پر محمول ہے، یعنی اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے  کہ اگر کوئی آدمی اپنی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے اور اس کے ثواب میں اپنے ساتھ سارے گھر والوں کو شریک کرلے تو یہ جائز ہے، اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے قربان فرمایا اور دوسرا مینڈھا قربان کرکے فرمایا : ’’ هذا عن من لم یضح من أمتي ‘‘  یعنی میں یہ قربانی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کر رہا ہوں جو قربانی نہ کرسکیں، لہٰذا جس طرح اس حدیث سے یہ مطلب لینا قطعاً درست نہیں ہوگا کہ چوں کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان فرمادیا؛ اس لیے اب امت کے ذمہ سے قربانی ساقط ہوگئی، بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ آپﷺ نے ثواب میں ساری امت کو اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ اسی طرح ترمذی شریف میں مذکور حدیث سے بھی یہ مطلب لینا درست نہیں کہ ایک صاحب نصاب آدمی ایک بکری کی قربانی اپنی طرف سے اور  گھر کے دیگر صاحب نصاب افراد کی طرف سے کرتا تھا اور سب کے ذمہ سے واجب قربانی ساقط ہوجاتی تھی، بلکہ حدیث شریف کا صحیح کا مطلب یہ ہے کہ  حضور ﷺ کے زمانہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ایک گھر کے اندر ایک ہی شخص صاحبِ نصاب ہوتا تھا، اس وجہ سے پورے گھر میں ایک ہی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگوں کے ذمہ صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہی نہ ہوتی تھی؛ اس لیے پورے گھر میں سے صرف ایک ہی آدمی قربانی کیا کرتا تھا، لیکن  قربانی کرنے والا اپنے گھر کے تمام افراد کو اس قربانی کے ثواب میں شریک کرلیتا تھا۔
ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں[عن أبي هريرة:] من كانَ لَه سَعةٌ ولم يضحِّ فلا يقربنَّ مصلّانا۔
الألباني (ت ١٤٢٠)، صحيح ابن ماجه ٢٥٤٩ • حسن • أخرجه ابن ماجه (٢١٢٣) واللفظ له، وأحمد (٨٢٧٣)
کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، لہٰذا دیگر عبادات (نماز ، روزہ، حج، زکاۃ ) کی طرح قربانی بھی ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہوگی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی قربانی الگ فرمایا کرتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، اور آپ ﷺ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قربانی مستقل طور پر ہوتی تھی، چنانچہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ  گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ گھر کے ہر صاحبِ نصاب فرد پر اپنی اپنی قربانی کرنا واجب اور لازم ہے، گھر کے کسی ایک فرد کے قربانی کرنے سے باقی افراد کے ذمہ سے واجب قربانی ساقط نہیں ہوگی۔

1 تبصرے :

ایک تبصرہ شائع کریں

Cancel Reply

لجنة التعليم والتربية کھنڈواری کے زیر اہتمام تقریب تقسیم انعامات کا انعقاد

الحمدللہ "لجنةالتعلیم و التربیة" کھنڈواری کے زیر اہتمام " مسابقہ پابندی نماز" بحسن و خوبی اختتام کو پہنچا۔ اسی مناسبت س...

I created this blog to give a truth message to everyone.You can find information on any topic on my blog. if you have an useful essay so send me via Gmail(azeemkhanazmi67@gmail.com). I will publish your essay on my blog. Thanks for visiting.

یہ بلاگ تلاش کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رائٹر کے متعلق مزید معلومات